خورشید ندیم

آئین جدید ریاست کے لوازمات میں سے ہے۔ مسلمان اہلِ علم خلافت و امارات کے پیراڈائم میں سوچنے کی عادی رہے ہیں۔ برصغیر میں روایتی علما کا طبقہ، اس باب میں قدیم نظامِ فکر ہی کے تحت سوچتا تھا ۔ اس کے تحت ایک امیرالمومنین ہے جو مطلق قوتِ نافذہ رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ افغانستان میں جب طالبان کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے اس خلافت کے پیراڈائم کو اختیار کیا۔ تاہم مسلمان اہلِ علم میں جن لوگوں کی دورِ جدید پر نظر تھی، انہوں نے اسلام کو بھی جدید ضروریات کے تحت سمجھا اور اس کی ضرورت محسوس کی۔
بیسویں صدی نظاموں کی صدی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اوراشتراکی نظام دنیا میں غالب تھے۔ جدید مسلمان اہلِ علم نے بھی اسلام کو متبادل نظام کے طور پر پیش کیا۔ اسی حوالے سے انہوں نے بھی جدید ریاست اور اس کے اداروں کے حوالے سے اس کی تعبیر کی ۔ علامہ اقبال کو اس میں اوّلیت حاصل ہے جب انہوں نے ترکی کے تجربے کو قبول کیا اور یہ رائے دی کہ پارلیمنٹ دورِجدید میں مسلمانوں کے تصورِ اجماع کا متبادل ہو سکتی ہے۔ مولانا مودودی نے اس تصور کو آگے بڑھایا اور’’ اسلام کے سیاسی نظام‘‘ بالخصوص ’’ اسلامی ریاست‘‘ کے تصور پر وقیع علمی کام کیا۔
پاکستان جب قائم ہوا تو جماعت اسلامی نے ابتدا ہی میں ’’ مطالبہ دستورِ اسلامی‘‘ کی مہم کا آغاز کر دیا۔ جدید ریاست کو ایک آئین اور دستور کی ضرورت تھی اور جماعت اسلامی نے اس کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا کہ یہ آئین اسلامی ہونا چاہیے۔ روایتی مذہبی حلقوں میں البتہ اس حوالے سے کوئی گرم جوشی تھی اور نہ ہی انہوں نے شعوری سطح پر جدید ریاست کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی تھی۔ جماعت اسلامی نے اس مہم میں روایتی علما کو ساتھ ملا یا۔ ان کوششوں کا حاصل دو دستاویزات کی صورت میں سامنے آیا۔ ایک علما کے بائیس نکات اور دوسرا قراردادِ مقاصد۔ مسلم لیگ کا معاملہ یہ تھا کہ اس نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک ملک تو حاصل کر لیا لیکن اس کے پاس ایسا کوئی مضبوط پروگرام موجود نہیں تھا جو اسلامی فکر کی بنیاد پر ایک جدید ریاست کی تشکیل کر سکے۔ چنانچہ اس خلا کوجماعت اسلامی نے پُر کیا اور اُس اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کرلی جس میں جماعت اسلامی کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔
قراردادِ مقاصد ۱۹۵۶ء کے پہلے آئین میں بطور دیباچہ شامل رہی اور اس کے بعدبھی یہ آئین کا حصہ رہی۔ ضیاا لحق مرحوم کے دور میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اسے آئین کا با ضابطہ حصہ بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے زیرِ اثر ہر آئین میں اسلامی دفعات بھی شامل کی جاتی رہیں۔ ان میں صدر اور وزیر اعظم کے مسلمان ہونے سے لے کر شراب پر پابندی جیسی دفعات شامل ہیں۔اس ساری جدوجہد کو سامنے رکھیں تو ایک بنیادی مسئلہ ایسا ہے جس کے حوالے سے مذہبی طبقات آئین کے حوالے سے ابہام کا شکار ہے۔ ۱۹۷۳ء کے آئین ، جسے اسلامی آئین کہا جا تا ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق دیتا ہے۔ اس آئین کی منظوری میں اکثر مذہبی جماعتیں شامل ہیں لیکن انہیں اس باب میں ہمیشہ تردد رہا کہ وہ پارلیمنٹ کس طرح اسلامی قانون بنا سکتی ہے، جس کے ارکان کی اکثریت دین کو جانتی نہیں اور ان کے خیال میں دینی کردار سے بھی متصف نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پارلیمنٹ سے نفاذِ اسلام کا مطالبہ بھی کیا جا تا رہا ہے۔
آئین کے باب میں مذہبی طبقات کی فکر کو سمجھنے کے لیے قرار دادِ مقاصد اور بائیس نکات کا مطالعہ ضروری ہے۔قراردادِ مقاصد ۱۲، مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئی اور بائیس نکات ۲۴۔جنوری ۱۹۵۱ء کو۔قراردادِ مقاصدنے آئین سازی کے لیے ایک بنیاد فراہم کی جب کہ بائیس نکات ان اصولوں کا تعین کرتے ہیں،مذہبی طبقات کے نزدیک جن کی تصریح آئین میں ہو نی چاہیے۔ان نکات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ علماکے سامنے ایک قومی ریاست کا تصور مو جود ہے، جسے سامنے رکھتے ——گیا :’’باشندگانِ ملک کووہ تمام حقوق حاصل ہو ں گے،جو شریعتِ اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں۔یعنی حدودو قانون کے اندرتحفظِ جان و مال و آبرو،آزادی مذہب و مسلک،آزادی ء عبادت،آزادی ء ذات،آزادی ء اظہارِرائے،آزادی ء نقل و حرکت،آزادی ء اجتماع،آزادی ء اکتسابِ رزق،ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔‘‘
اس کا ساتھ ان نکات میں روایتی امیر المو منین اور جدیدپارلیمانی نظام کے وزیر اعظم کے تصورات کو سامنے رکھتے ہو ئے،رئیس مملکت کا تصور دیا گیاہے۔ایک نکتہ ہے:’’ رئیسِ مملکت ہی نظمِ مملکت کا اصل ذمہ دار ہو گا۔البتہ وہ اپنے اختیارات کا کو ئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔‘‘مزید کہا گیا:’’رئیسِ مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں،بلکہ شورائی ہو گی۔یعنی وہ ارکانِ حکومت اور منتخب نمائندگانِ جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔‘‘ ان نکات میں روایتی تصور کے بر خلاف عدلیہ اور انتظامیہ میں علیحدگی کے اصول کو مانا گیا جو جدید ریاست اور آئین سے متعلق ایک تصور ہے۔
قرارِ دادِ مقاصد اور بائیس نکات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ علما نے جدید قومی ریاست کے پراڈائم میں میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔اس کے ساتھ آئین ا ور جمہوریت کو بھی قبول کیا گیا ہے۔میرا تاثر یہ ہے کہ جماعت اسلامی ان امور میں واضح تھی لیکن دیگر روایتی علما نے اس باب میں مضمرات کو سمجھے بغیراسے قبول کیا۔انہیں اندازہ نہیں ہو سکا کہ اگر یہ معاملہ ان خطوط پر آگے بڑھتا ہے تواس کے دونتائج ناگزیر ہیں۔ایک تو یہ کہ سماج میں علما کی قائدانہ اور سیاسی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔ دوسرا یہ کہ دین کی تشریح و تعبیر کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے پاس چلا جا ئے گا۔بد قسمتی سے بعد کے ادوار میں جب آئین معطل ہوا اور فوجی آ مروں نے اسلام کواپنے حق میں سیاسی دلیل کے طور پر استعمال کیاتو علما کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔دین کی تشریح و تعبیر میں ان کو اولیت دی گئی کیونکہ پارلیمنٹ مو جود ہی نہیں تھی۔اس کا مظہر جنرل ضیاالحق مر حوم کے دور میں نافذ ہونے والا حدود آرڈیننس ہے۔بعد میں آٹھویں ترمیم کے تحت انہیں آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔اسی طرح ضیاالحق صاحب نے مجلس شوریٰ کے نام سے پارلیمنٹ کا ایک متبادل دیا جس کے ارکان کا انتخاب خود ’امیر المومنین‘ کرتے تھے۔
انتخابات کے موقع پر مذہبی جماعتوں نے جو منشور پیش کیے، ان میں جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان نے یہ موقف اپنا یا کہ ملک میں فقہ حنفیہ نافذ کی جا ئے گی۔اسی طرح ’شریعت بل‘ نام سے کوشش کی کہ عدلیہ وغیرہ میں مفتی کا منصب قائم ہو اور یوں علما اس آئینی نظام کا موثر حصہ بن سکیں۔اس کے ساتھ انہوں نے اپنی سیاسی عصبیت کو استعمال کرتے ہوئے،اسلامی نظریاتی کونسل میں اپنی موجود گی کو یقینی بنا یا ۔اسی طرح عملی طور پر مذہبی طبقات نے پارلیمنٹ کے اس حق کو قبول نہیں کیا کہ وہ اسلامی امور میں قانون سازی کرے۔اس حوالے سے جب طالبان کا موقف سامنے آیا تو یہ بات مذید واضح ہوئی کہ بظاہر آئین کو تسلیم کرنے کے باوجود روایتی دینی حلقے آئین اور شریعت میں فرق کرتے ہیں اور طالبان کے موقف کی خاموش تائید کرتے ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں نے بھی اس حوالے سے مفاہمت کی پالیسی اپنا ئی اور پارلیمنٹ، پوری طرح بروئے کار نہیں آ سکی۔
یہ بات ، البتہ خوش آئند ہے کہ سیاسی عمل میں شریک مذہبی جماعتیں آئین کو مانتی ہیں اورجمہوری عمل کا حصہ ہیں۔ اگر جمہوری عمل میں تسلسل رہا تو ان میں مزید وسعتِ نظر پیدا ہوگی اور وہ آئین کی بنیاد پر قائم ایک قومی جمہوری ریاست سے زیادہ ہم آہنگ ہو جا ئیں گے۔ہوئے،آئین سازی کی بات کی گئی ہے۔مثال کے طور پران میں بنیادی شہری حقوق کا ذکر کرتے ہوئے کہا