18ویں آئینی ترمیم جسے قومی سیاسی تاریخ میں مذاکراتی انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کی منظوری کے بعد مشترکہ مفادات کونسل نے اپنی دوسری سالانہ رپورٹ 2011-2012 پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کر دی ہے۔اگرچہ قومی ذرائع ابلاغ نے اس پر بہت کم لکھا ہے اور پارلیمنٹ نے بھی اس پر حاطر خواہ بحث نہیں کی۔ سیٹیزن وائر اس پر تبصرہ پیش کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مندرجات کا جائزہ پیش کرنے سے قبل مناسب ہو گا کہ مشرکہ مفادات کونسل کے قیام کی غرض و غایت کا احاطہ کر لیا جائے، جس سے یہ سمجھنے میں قدرے آسانی ہو گی کہ آیا ہونے والی پیش رفت اس کی روح اور جذبے کے مطابق ہے بھی یا نہیں!!
پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جہاں ماضی میں وفاقیت اور جمہوریت کیلئے ماحول کچھ زیادہ سازگار کبھی بھی نہیں رہا، وفاقی اکائیوں کواسلام آباد کے تابع فرمان رکھنے کی کوششوں کے نتیجہ میں مرکز گریز رجحان کو تقویت ملی، سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کا مطالبہ گویا غداری کے مترادف تھا، لوگ اپنے ہی ملک میں ناراض اور طرزِ حکمرانی سے انتہائی پریشان اور تبدیلی کے خواہاں تھے اور آخر کار طویل جدو جہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد وہ لمحہ آن پہنچا جب جمہوریت بحال ہو کر رہی کیونکہ پاکستانی عوام نے اپنے اس حق سے دستبردار ہونا سیکھا ہی نہیں۔ اور وہ پاکستان کا بہتر مستقبل اسکے وفاقی، پارلیمانی اور جمہوری ڈھانچے میں تلاش کرتے ہیں۔
ان حالات میں منتخب پارلیمنٹ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ملکی وحدت کو برقرار رکھنا تھا، وفاقی اکائیاں صوبائی خودمختاری سے کم پر راضی نہ تھیں کیونکہ اس کی ضمانت 1973 ؁ء کے متفقہ قومی دستور میں دی گئی ہے، وفاق اور صوبوں کے مابین اصل جھگڑا سیاسی حکمرانی کے اختیار اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر تھا جسے جمہوری انداز میں نمٹانے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کا قیام عمل میں لایا گیاتھا، یقیناًیہ ایک ایسا آئینی فورم ہے جہاں پیچیدہ سے پیچیدہ حل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور اگر کوئی مشکل پیش آ جائے تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دو تہائی اکثریت کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے تا ہم 1973ء کے بعد دو مارشل لاؤں نے اس فورم کو اپاہج کر دیا تھا۔
زیر نظر رپورٹ کے مطابق 18ویں ترمیم کے بعد دوسرے سال میں مشترکہ مفادات کونسل کے دو اجلاس منعقد ہوئے، 27۔ اگست 2011ء کے اجلاس میں تمام سات معاملات وفاق کی جانب سے پیش کیے گئے جبکہ 9 فروری 2012 کے اجلاس میں صرف صوبہ پنجاب نے بہبود آبادی پروگرام کیلئے فنڈز کی فراہمی سے متعلق معاملہ پیش کیا اور دیگرمعاملات وفاقی وزارتوں نے اٹھائے۔
پہلے اجلاس میں خصوصی اقتصادی زونز کے قیام، زکواۃ فنڈز کی تقسیم، شہریوں کے نقصان کا ازالہ پروگرام، سرکاری وسائل کا انتظام اور نگرانی، گیس سے متعلق ڈھانچے کی ترقی کے لئے ٹیکس، پاور سیکٹر کی نجکاری اور چھٹی مردم و خانہ شماری کے معاملات زیر بحث لائے گئے۔ 9 فروری 2012 کے اجلاس میں کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال نئے باقاعدہ اور کچھ ایجنڈے کے علاوہ معاملات جیسے نیپرا، حقوق دانش، تھرکول پراجیکٹ، بعد از سیلاب تعمیر نو، صوبوں میں زرعی انکم ٹیکس پالیسی، اسلام آباد اور راولپنڈی کے لئے پانی کی فراہمی، پیپرا آرڈیننس ترمیمی بل، قومی سائنس ٹیکنالوجی پالیسی، پٹرولیم کی دریافت اور پیداوار پالیسی، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی مالی خودمختاری سے متعلق بحث اور فیصلے کیے گئے۔

مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیے گئے زیادہ تر معاملات 18ویں آئینی ترمیم کے تحت بہت واضح کیے جا چکے ہیں، کنکرنٹ لسٹ کے خاتمہ اور وفاقی آئینی فہرست دوم نے کوئی ابہام باقی رہنے نہیں دیا، اس لئے یہ پہلو قابل تعریف ہے کہ کونسل کی کارکردگی بارے سالانہ رپورٹ دونوں ایوانوں میں پیش کر کے آئین کے احترام کو عملی جامہ پہنایا گیا، بلا شبہ مستقبل میں آئین و قانون کی حکمرانی کے امکان کے طور پر یہ ایک مثبت پیش رفت ہے ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ صوبوں اور وفاق کے مابین تنازعات سے بھری ہے۔ ایسے منظر نامے میں مشترکہ مفادات کونسل ایک مسلسل اور جامع مکالمے کا پلیٹ فارم بنتا ہے اسکے اجلاسوں کو بھرپور بنا کر ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دونوں اجلاس صرف ایک ایک دن پر محیط تھے حالانکہمسائل کے انبار تقاضا کرتے ہیں کہ وفاق اور صوبوں کی قیادت باہم سر جوڑ کر ہفتوں بیٹھے اور نتیجہ خیز فیصلے کر کے اٹھے۔ رپورٹ کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے فیصلوں کی پرکھ پڑتال ہو، ان پر عملدرآمد کی رفتار یا بصورت دیگر بے عملی کی وجوہات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے۔ مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے جمہوری ادارے ابھی تک اپنے اس کام سے غافل ہیں ۔ اور کچھ یہی حال قوم کو ہمہ وقت ہیجان میں مبتلا رکھنے والے میڈیا کا بھی ہے۔ حالانکہ اس رپورٹ میں درج ہر فیصلے پر تفصیلی تحقیقی رپورٹ لکھی جا سکتی ہے۔ رپورٹ میں وفاق اور صوبوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے موضوعات گواہی دیتے ہیں کہ اصل تنازعے اور جھگڑے معاشی ہیں جو کہ سنجیدہ دانش کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ ہمیں زبانی جمع خرچ کی عادت سی پڑ چکی ہے اور بے معنی لفاظی کے بوجھ تلے دب کر عملی کی بستی ویران ہو رہی ہے۔ رپورٹ چونکہ انگریزی میں شائع کی گئی ہے ۔ یہ تبصرہ عوام اور دلچسپی رکھنے والے افراد کیلئے خصوصی طور پر اردو میں تحریر کیا گیا ہے۔