شفقت عزیز

پاکستان میں سیاست اور نظام ہائے حکومت سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان ایک وفاقی ملک ہے ۔تاہم وفاق کام کیسے کرتا ہے، وفاقی طرز حکومت میں وفاق اور وفاقی یونٹوں یا اکائیوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوتی ہے اور تقسیم اختیارا ت کس طرح کی جاتی ہے، اس ضمن میں معلومات بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔پاکستان میں 18 ویں آئینی ترمیم ، وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان تعلقات کار کے حوالے سے ملکی تاریخ کی اہم ترین پیش رفت قرار دی گئی اور اس کی بدولت ملک کو صحیح معنوں میں وفاق بنانے کی ٹھوس بنیاد رکھی گئی ۔تاہم یہ مثبت پیش رفت بھی وفاقی طرز حکومت سے متعلق عمومی شعور عام کرنے کا باعث نہ بن سکی۔

جہاں تک وفاق اور وفاقی اکائیو ں کے درمیان معاملات کا تعلق ہے ، اس وقت امریکہ، برطانیہ، روس، جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا، پاکستان اور بھارت سمیت 27ممالک میں وفاقی طرز حکومت رائج ہے اور ان تمام ممالک میں حکومت کی مختلف سطحوں کے درمیان تقسیم اختیارات کے مسائل زیر بحث آتے رہتے ہیں۔تاہم ان تمام ممالک میں وفاقی نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ان سیاسی اور عدالتی فیصلوں کا کردار بہت اہم ہے جن کا مقصد ملک کے عوام کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانا اور ان کی بہترین فلاح و بہود کے علاوہ فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی مؤثر شرکت کو یقینی بنانا تھا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وفاقی طرز حکومت عام طور پر تین سطحی نظام کے حامل ہوتے ہیں جن میں وفاقی حکومت، وفاقی اکائیاں یعنی صوبے یا ریاستیں وغیرہ اور مقامی حکومتیں اور آئین میں ان کے دائرہ امور واضح ہوتے ہیں۔وفاقی نظام حکومت در اصل اختیارات کے ایک بہترین توازن کا نظام ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو امورمملکت خصوصاً مقامی سطح پر اپنی ترجیحات طے کرنے کا موثر موقع دینا ہے۔ اور انہیں بہترین خدمات فراہم کرنا ہے۔
پاکستان میں وفاقی تقاضوں کو فرانوش کرنے کا ہی نتیجہ تھا کہ آج تک اختیارات کی نچلی سطح پر مؤثر منتقلی ممکن نہ ہوسکی اور اس کے برعکس اختیارات کی مرکزیت جیسے رجحانات سامنے آئے جو وفاقیت کی روح کے منافی ہے۔پاکستان میں جمہوری اقدار کی بالا دستی اور صوبائی خود مختاری کے لیے آوازبھی گزشتہ کئی دہائیوں سے اٹھائی جاتی رہی ہے اور نتیجے میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی صورت میں اس جانب عملی پیش رفت کا آغاز ہوا۔ یہ ایک خوش آئیند امر ہے کہ آئینی طور پر صوبائی خود مختاری اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا عمل خوش اسلو بی سے آگے بڑھا تاہم عمل درآمد کے ضمن میں ابھی کئی مسائل موجود ہیں۔

وفاقیت کے تقاضوں پر صحیح معنوں میں پورا اترنے میں اصل رکاوٹ غیر جمہوری طرز فکر ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کو وفاقیت کے ثمرات یا کم از کم ان معاملات جن کا تعلق لوگوں کی روز مرہ زندگی سے ہے، کے بارے میں بھی آگاہی نہیں دی گئی اور یوں یہ اہم موضوع تاحال توجہ سے محروم چلا آرہا ہے۔یہ سوال ملک کے دانشور حلقوں کے لیے بھی ایک بڑے سوالیہ نشان سے کم نہیں کہ آیا کیا وجہ ہے کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک وفاقی ملک ہونے کے باوجود حقیقی وفاق کے طور پر کیوں نہیں ابھر سکا ۔ اور تعاون سے عبارت وفاقی کلچر ایک خواب ہے۔
معاشی اور انتظامی اعتبار سے وفاقیت کے تقاضوں پر پورا اترنے کے علاوہ کثیر جہتی کا تحفظ اور فروغ بھی وفاقی جمہوری معاشرے کے لیے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔اگر پاکستان کی ثقافتی کثیر جہتی پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اس اعتبار سے ایک مالا مال وفاقی ملک ہے اور یہ ثقافتی کثیر جہتی پاکستانی معاشرے کا اصل حسن ہے ۔ پاکستان کے تمام خطے منفرد جغرافیائی حسن اور رہن سہن کے حامل ہیں اور ملک میں بولی جانے والی تمام زبانیں ملک کا اہم ثقافتی اثاثہ ہیں۔جمہوریت اور وفاقیت پر پختہ یقین رکھنے والے حلقے اٹھارویں آئینی ترمیم کو ملک کی جمہوری، سیاست ا ور وفاقی تاریخ کا اہم ترین سنگ میل قرار دیتے ہیں اور ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس تاریخی ترمیم کی بدولت پاکستان میں وفاقی نظام درست سمت پر گامزن ہوگیاہے تاہم اب ملک کے عوام کو آگے بڑھ کر اپنے جمہوری حقوق اور وفاقیت کے تحت حکومتی عمل میں مؤثر شرکت کے حق کا تحفظ کرنا پڑے گا۔ یہ تبھی ممکن ہو گا جب لوگ آئین اور وفاق کے تصورات کو سمجھیں گے۔واضح رہے اٹھارویں ترمیم کے علاوہ گزشتہ چند برسوں کے دوارن وفاقی نظام حکومت کو مزید مؤثر بنانے کے لیے این ایف سی ایوارڈز اور کئی دیگر اقدامات کیے گیے جن کے ملک کے وفاقی جمہوری مستقبل کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور بلاشبہ ان تمام امور کا احسن طریقے سے طے ہو جانا ملک کی سیاسی قیادت کی بالغ نظر کی بھی دلیل ہے۔ان کامیابیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اختیارات کی منتقلی کا باقی ماندہ عمل بھی جلد مکمل کیا جائے ا ور ساتھ ہی وفاقیت کے حوالے سے منفی تصورات اور مفروضات کے خاتمے کے لیے قوم کو حقائق سے آگاہی دی جائے۔مجودہ دنیا کے سیاسی اور جمہوری رجحانات اور تجربات کو سامنے رکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ مختلف وفاقی اکائیوں کو علاقائی سطح پر اختیارات دینے سے وفاق کمزور ہونے کے بجائے مضبوط ہوتا ہے اور معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔آج کے پاکستان میں اس کی اہمیت اور برھ چکی ہے کیونکہ تنازعے اور محرومیوں پر گفتگو ہمارے کئی خواب اجاڑ رہی ہے۔
ملک میں سیاسی اور سماجی استحکام اور قومی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سماجی اور سیاسی طور پر مزید ایسی اصلاحات متعارف کرائی جائیں جن کی بدولت مرکزیت کے حامل رجحانات کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ مالیاتی اور انتظامی اختیارات کو اوپر سے نچلی سطح تک مؤثر طور پر منتقل ہونے کو یقینی بنایا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں صحیح معنوں میں جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے اور عوام کووفاقیت کی اصل روح یعنی قانون کی حکمرانی ، مفاہمت، ہم آہنگی، اقلیتوں کا احترام اوربرداشت جیسے اصولوں سے روشنا س کرانے کے لیے مربوط اور موثر سوک ایجوکیشن کی کاوشیں کی جائیں کیونکہ ان بنیادی جمہوری اقدار سے متعلق آگاہی عام کیے بغیر وفاقیت کے تقاضوں کو عملی جامہ پہنائے جانے کی توقع ایک دشوار امر ہے۔ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت کو مزید بہتر بنا کر ملک کے تمام تر وسائل اور توانائی عوام کی بہتری کیلئے استعمال کرنے کے لئے صحت مند مکالمہ اور صوبوں اور وفاق کے مابین صحت مند مقابلہ جاری رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔