یہ عجیب تضاد ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعہ وفاق سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی پر خوشی کے شادیانے بجانے والی سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے سے پہلو تہی کر تہی ہیں۔آخر اس اجتناب اور گریز کا سبب کیا ہو سکتا ہے !! حالانکہ یہ ایک ایسا قانونی تقاضا ہے جس کی صراحت آئین سے کر دی ، صوبے پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کے قیام کیلئے ضروری قانون سازی کریں اور منتخب اداروں کو درکار ضروری وسائل اور انتظامی اختیارات تفویض کیے جائیں تا کہ عوام اپنی قریب ترین سطح پر وہ سہولیات با آسانی حاصل کر سکیں جو اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے ان کا بنیادی حق ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مقامی حکومتوں کا نظام اپنی فعالیت، اثر پذیری اور مثبت نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے، محدود حلقہ انتخاب کے باعث اخراجات بھی زیادہ نہیں ہوتے، امیدوار کو علم ہوتا ہے کہ رائے دہندگان اس کے کردار و عمل سے بخوبی واقف ہیں اور اگر انہوں نے اپنے نمائندے کے طور پر اسے چن لیا تو وہ یقیناًاپنے مسائل کا حل چاہیں گے اور کوتاہی برتنے پر اسے کوئی چھوٹ بھی نہیں ملے گی، دراصل یہ ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں لوگ اپنی گلی محلے کے لوگوں کو اجتماعی بھلائی کی ذمہ داری سونپ کر نہ صرف ان کی کارکردگی پر نگاہ رکھتے ہیں بلکہ دسترس میں ہونے کے باعث ان کا احتساب بھی مشکل نہیں ہوتا۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحت و صفائی، تعلیمی سہولیات اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے مقامی منتخب نمائندے اس بنا پر زیادہ سنجیدگی ، ذمہ داری اور خلوص کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ ان کے اپنے بچوں نے اسی ماحول میں سانس لینا، کھیلنا کودنا اور پڑھنا ہوتا ہے جبکہ اہل خانہ ان سے باز پرس کریں گے اگر نکاسی آب اور صفائی کا انتظام اچھا نہ ہو ا، لوگوں کے درمیان چھوٹے موٹے تنازعات اور گھریلو جھگڑے مقامی، ثالثی کونسل میں نمٹا دئیے جانے کے باعث محکمہ پولیس اور عدالتوں پر کام کا غیر ضروری بوجھ نہیں پڑے گا جس سے امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور انصاف کی فراہمی میں مدد ملے گی۔
اختیارات کی عدم مرکزیت کا اصول اٹھارویں آئینی ترمیم کی روح ہے جس کے تحت وفاقی اکائیوں کو 1973ء کے آئین میں دی گئی ضمانت کے تحت بالآخر خودمختاری ملنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، صوبے اس وفاق کے تابع مہمل یا با جگزار ریاستوں کے بجائے برابر کی آئینی حیثیت کے مالک ہیں اور اہم قومی معاملات پر فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اراکین قومی اسمبلی کو اپنی اصل ذمہ داری یعنی قانون سازی سے زیادہ افتتاحی تختیاں لگوانے میں دلچسپی ہے حتاکہ بعض اوقات پرانے منصوبوں پر نصب تختیوں کے اوپرتختیاں لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا حالانکہ پوری دنیا میں اراکین پارلیمنٹ ہمارے منتخب نمائندوں کی تقلید کرتے دکھائی نہیں دیتے۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق جب دنیا کو ترقی کے اشارے دے رہے تھے اس وقت یہاں پاکستان میں اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز دے کر ٹھیکیداری کا چسکا لگایا جا رہا تھا، وہ دن اور آج کا دن ہمارے منتخب نمائندوں کی خوئے ٹھیکیداری ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ٹھہری، پارٹی ٹکٹ کے حصول اور الیکشن مہم پر اٹھنے والے بھاری مصارف کی سود سمیت وصولی اور اپنے نام کی تختی کے ذریعہ شہریت کا نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے، مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں پیسہ کماتے رہنے کے سوا بظاہر اور کوئی رکاوٹ نہیں دکھائی دیتی، تا ہم مقامی حکومتوں سے پاکستانی سیاسی جماعتوں کے خوف کا بنیادی سبب ریاستی اختیارات میں غریب طبقات کی شراکت داری اور اس کے نتیجہ میں بنیادی حقوق کے شعور کی بیداری ہو سکتا ہے، گویا صوبوں میں برسراقتدار ریاستی جماعتیں وفاق سے اپنے لیے تو مزید اختیارات اور وسائل کی فراہمی پر اصرار کرتی ہیں لیکن انہیں شاید یہ گوارا نہیں کہ مقامی سطح پر عوام اپنی تقدیر کے مالک خود بن سکیں۔
مقامی حکومت کے نظام کی عدم موجودگی میں پاکستانی جمہوریت کی مثال کسی ایسے درخت جیسی ہے جس کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہی نہیں، سیاسی جماعتیں اپنی بقاء کے حوالے سے ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہی ہیں، یہی سبب ہے کہ پارٹی الیکشن کے بجائے نامزدگیوں سے کام چلایا جا تا ہے اور اگر کہیں الیکشن ہوں بھی تو ان کی شفافیت مشکوک رہتی ہے، اب ایسی سیاسی جماعتیں جو اپنے اندر جمہوریت کا راستہ روک رہی ہیں وہ بھلا بنیادی جمہوریت کے تصور کو کس طرح قبول کریں گی، اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں خوف کی چادر اتار کر مقامی سطح پر شہریوں کو ریاستی معاملات میں شرکت کا احساس دلانے کیلئے مقامی حکومتوں کے انتخابات کی ذمہ داری پوری کریں۔