ظفراللہ خان

        گزشتہ دنوں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پاکستان پبلک ایڈمنسٹریشن ریسرچ سینٹر نے وفاقی ملازمین کے حوالے سے اپنے سالانہ تجزیہ کی رپورٹ برائے سال 2012-13 ء کو شائع کیا ہے۔ اس رپورٹ کی اہمیت اس اعتبار سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ 14 اگست 2013ء سے آئین کے آرٹیکل 27 میں تحفظ یافتہ کوٹہ سسٹم کی چھتری ختم ہو چکی ہے۔ حکومت نے کوٹہ سسٹم میں 20 سال کا اضافہ کرنے کیلئے 23ویں آئینی ترمیم کا مسودہ 28 اگست 2013ء کو قومی اسمبلی کے سامنے رکھا۔6 فروری 2014 کو لاء جسٹس اور انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ بھی قومی اسمبلی کے سامنے رکھی جسمیں متحدہ قومی موومنٹ نے اپنا اختلافی نوٹ بھی لکھا کہ کوٹہ سسٹم کا آئین میں تحفظ ختم ہونا چاہیے کیونکہ یہ میرٹ کی قاتل ہے۔ تاہم ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے کوٹہ سسٹم بغیر کسی آئینی تحفظ کے نافذ العمل ہے۔ اس عرصہ میں بھرتیوں کے خلاف پٹیشن کی لہر چل سکتی ہے۔ تا ہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ 1973 ء کے آئین میں کوٹہ سسٹم اس لئے محض دس سالوں کیلئے رکھا گیا کہ ملک کے تمام علاقوں میں ترقی کا سفر غیر متوازن رہا اور عزم کیا گیا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں کو دس سال میں اتنا سربلند کر دیاجائے گا کہ کوٹہ سسٹم کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پھر 1983ء آ گیا اور ملک پر مارشل لاء کے سائے تھے آرام سے اس کوٹہ سسٹم کو دس سال کیلئے مزید بڑھا دیا گیا پرھ 1993 ء آیا تو اسمیں مزید پیس سال کا اضافہ کر دیا گیا۔ اس بار اسمیں 20 سال تک اضافہ کی تجویز دی گئی ہے گویا 2033 ء تک ملک میں میرٹ کی بجائے کوٹہ سسٹم کا راج ہو گا۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ جب اس ترمیم کو منظور کیا جائے گا تو عوام کے سامنے ایسی کوئی تحقیق نہیں رکھی جائے گی کہ ہم گزشتہ41 سال میں کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقہ کیوں نہیں بنا پائے۔ حالانکہ ہاؤس آف فیڈریشن سینٹ آف پاکستان میں کم ترقی یافتہ علاقوں کے حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی اپنے اچھے برے نمائشی کام میں 1973ء سے ہی مصروف عمل ہے۔ یہاں یہ بات قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ پاکستان میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ 1948 میں ہوا جسمیں میرٹ کی ذکر تک نہ تھا۔ 42 فیصد کوٹہ بنگال ، 23 فیصد پنجاب، 17 فیصد سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور پاکستان میں شامل ہونے والی ریاستوں کو مشترکہ طور پر دیا گیا جبکہ 15 فیصد حصہ بھارت سے ہجرت کر کے آنے والوں اور 2 فیصد کراچی کیلئے بطورِ دارالخلافہ رکھا گیا ۔ اسمیں 1949 میں ترمیم ہوئی اور 20 فیصد کوٹہ میرٹ کے حصہ میں آیا جبکہ بنگال کو 40 فیصد پنجاب کو 23 فیصد، دیگر صوبوں اور ریاستوں کو 15 فیصد اور کراچی کو 2 فیصد حصہ دیا گیا۔ 1956 کے آئین میں اسے ’’غیر امتیازی شک‘‘ کے طور پر تحفظ دیا گیا اور یہی صورتحال 1962 کے آئین میں بھی برقرار رہی۔1973 ء کے آئین میں اس حوالے سے آرٹیکل 27 بنیادی حقوق کے باب کا حصہ بنا جسمیں 18 ویں ترمیم نے فقط اتنی سے تبدیلی کی کہ پارلیمنٹ کسی بھی طبقہ یا علاقہ کی پاکستان کی ملازمتوں میں عدم نمائندگی کے مسئلہ کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ٹھیک کر سکتی ہے۔ اس سے ملتی جلتی ترمیم پالیسی کے راہنما اصولوں سے متعلق آرٹیکل 38 میں بھی کی گئی۔ 18 ویں ترمیم کی کمیٹینے بلوچستان میں بلوچ اور پشتون نمائندگی میں توازن لانے کیلئے پالیسی سامنے نہیں آئی کہ دعویٰ کیا ج سکے کہ اس پر عملدرآمد ہوتا نظر آئے۔1949ء میں 20 فیصد میرٹ سسٹم سے آغاز کرنے والے ملک میں 2014 ء میں میرٹ کا حصہ سکڑ کر سات عشا ریہ پانچ فیصد رہ گیاہے۔ پنجاب بشمول وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا حصہ پچاس فیصد، سندھ کا حصہ انیس فیصد، خیبر پختونخواہ کاکوٹہ گیارہ عشاریہ پانچ فیصد ، بلوچستان کا حصہ چھ فیصد، فاٹا اور گلگت بلتستان کا حصہ چار فیصد اور آزاد کشمیر کا حصہ دو فیصد ہے۔ اسی کوٹہ میں2007 ء میں یہ ترمیم کی گئی کہ تمام علاقائی کوٹہ میں10 فیصد حصہ خواتین کا ہو گا جبکہ 2009 میں علاقائی کوٹہ میں 5 فیصد حصہ مذہبی اقلیتوں کیلئے مختص کیا گیا۔ جبکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سول سروس کے امتحان کے بغیر 10 کے لگ بھگ سیٹیں مسلح افواج کے افسروں کیلئے بھی مختص کر دی گئیں۔ ترقی کا عدم توازن تو ہر صوبہ کے اندرموجود ہے لیکن سندھ واحد ہے جہاں صوبے شہری اور ساٹھ فیصد دیہی میں تقسیم کر دیا گیا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ سندھ میں شہری اور دیہی تقسیم کی خلیج انتہائی گہری ہو چکی ہے۔ اس ساری رام کہانی پر دکھ نہ ہوتا اگر کم ترقی یافتہ علاقوں کی واقعی ملازمتیں مل جاتیں یا پھر وہاں ترقی کا ایسا سفر شروع ہو جاتا کہ 2014 میں ہم اسمیں 20 سال کا اضافہ کی بجائے اس کے خاتمہ کا بل منظور کر رہے ہوتے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ وفاقی حکومت کے چار لاک چھیالیس ہزار آٹھ سو سولہ افراد میں سے 22,156 گریڈ 17 سے 22 میں کام کرتے ہیں ۔ جن میں سے 56 فیصد کا تعلق پنجاب، 13 فیصد کا تعلق خیبرپختونخواہ، 15 فیصد کا تعلق سندھ(7فیصد شہری اور 8 فیصد دیہی)، 4 فیصد بلوچستان ، 8 فیصد گلگت بلتستان، 2 فیصد فاٹا، اور ایک ایک فیصد کا تعلق اسلام آباد اور آزاد کشمیر ہے ہے۔ گریڈ ایک سے سولہ کی کہانی کچھ اسطرح ہے کہ 43 فیصد کا تعلق پنجاب، 20 فیصد کا تعلق خیبرپختونخواہ، 13 فیصد کا تعلق سندھ(7فیصد شہری اور 6 فیصد دیہی)، 4 فیصد بلوچستان، 6 فیصد گلگت بلتستان، 2 فیصد فاٹا، 2 فیصد اسلام آباد اور ایک فیصد آزاد کشمیر سے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت سے منسلک اداروں کو دیکھا جائے تو اسکے گریڈ 17 سے 22 تک میں 19,171ملازمین ہیں جن میں سے 55 فیصد پنجاب،13 فیصد خیبرپختونخواہ، 15 فیصد سندھ( 7 فیصد شہری، 8 فیصد دیہی)، 4 فیصد بلوچستان، 9 فیصد گلگت بلتستان، 2 فیصد فاٹا اور ایک ایک فیصد اسلام آباد اور آزاد کشمیر سے ہیں۔ گریڈ ایک سے سولہ کے 409,427 ملازمین کی کہانی بھی کوئی مختلف نہیں اور ان میں سے 43 فیصد پنجاب 29 فیصد خیبرپختونخواہ، 13 فیصد سندھ(7 فیصد شہری، 6 فیصد دیہی) 6 فیصد گلگت بلتستان، 4 فیصد آزاد بلوچستان،دو فیصد اسلام آباد دو فیصد فاٹا اور ایک فیصد آزاد کشمیر سے ہیں۔ وفاقی حکومت کا مختلف کارپوریشنوں میں 66,807 ملازمین گریڈ 17 سے 22 میں کام کرتے ہیں جن میں سے 47 فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ 33 فیصد کا تعلق سندھ (14 فیصد دیہی، 19 فیصد شہری)، 12فیصد خیبر پختونخواہ، 4 فیصد بلوچستان سے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کی ہے جن میں سے 55 فیصد کا تعلق پنجاب، 21 فیصد سندھ(12 فیصد شہری، 9 فیصد دیہی)15 فیصد کا تعلق خیبرپختونخواہ اور 5 فیصد کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اسلام آباد، فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا حصہ ایک ایک فیصد ہے۔ فیڈرل سیکرٹریٹ اسلام آباد میں گریڈ ایک سے بائیس تک 18,218 ملازمین کام کرتے ہیں جن میں سے 57 فیصد کا تعلق پنجاب، 15 فیصد خیبرپختونخواہ، 10 فیصد اسلام آباد، 9 فیصد سندھ(5 فیصد دیہی، 4 فیصد شہری)، 3 فیصدبلوچستان، 4 فیصد آزادکشمیر جبکہ ایک ایک فیصد کا تعلق فاٹا اور گلگت بلتستان سے ہے۔ فیڈرل سیکرٹریٹ میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والوں (گریڈ17-12) میں پنجاب کا حصہ61 فیصد، خیبر پختونخواہ کا حصہ 16 فیصد سندھ کا حصہ 12 فیصد اور بلوچستان کا حصہ 5 فیصد ہے اسی طرح مذہبی اقلیتوں کی وفاقی ملازمتوں میں حصہ داری فقط دو فیصد ہے جبکہ ان کا کوٹہ پانچ فیصد ہے۔ کچھ ایسا ہی حال خواتین کی نمائندگی کا ہے۔ یہ اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ برسوں سے رائج کوٹہ سسٹم کے باوجود ہم فاٹا بلوچستان اور سندھ کو اس کا حق نہیں دے سکے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اس ساری تحقیق کو کوٹہ سسٹم میں 20 سال کے اضافہ کی بحث کا حصہ بناتے اور ان افراد اور اداروں کا احتساب کرتے جنہوں نے کوتاہیاں کیں۔ سنجیدگی شاید ہمارے ہاں نایاب پرندہ ہے اور دھرنوں، جلسے جلوسوں اور ٹاک شوز سے کام آسانی سے چل جاتا ہے۔ تا ہم یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ کبھی ڈائنوسار بھی روئے زمین پر بہت ہیبت ناک تھے لیکن جب وہ اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ رہے تو نایاب ہو کر معدوم ہو گئے۔ ناجانے ہمیں اپنے پالیسی ساز ڈائنوساروں سے کب نجاب ملے گی؟