پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شہرت پانے والے سیاسی نعروں پر حق ملکیت آج بھی انہی جماعتوں کا ہے جن پر انہوں نے اپنی سیاست اور انتخابی مہم کی بنیاد رکھی تھی، جبکہ بعض نعرے”غریب کی جورو، سب کی بھابھی“ کے مصداق ضرورت کے تحت برتے جانے کیلئے بھی ہمیشہ دستیاب رہے ہیں۔ سیاست کاکوئی بھی طالب علم جمہور اور جمہوریت سے جڑے تاریخی نعروں کو محض چند الفاظ کا مجموعہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کر سکتا، کیونکہ ایک طرف یہ عوام کی دکھتی رگ کا پتہ دیتے ہیں تو دوسری طرف اسے بلند کرنے والوں کی وسعت ِ نظر اور تدبر یا کور چشمی اور سوچ کی غربت کا بھی اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے۔slogan2
مقبول سیاسی نعرے عام طور پر جس تناظر میں لگائے گئے اس کا ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال،عوام کی حالت زار اور جمہوریت کی شدید خواہش سے گہرا تعلق تھا، حقیقی جمہوری قوتیں جن کے پاس اس حوالے سے تنوع تھا، ان کے پہلو بہ پہلو غیر جمہوری قوتوں کے تخلیق کردہ گروہوں کو ہمیشہ صرف ایک ہی نعرہ، ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ“ پر گزارہ کرنا پڑا، دیگر نعرے ان گروہوں نے بظاہر اپنی جداگانہ شناخت کیلئے اپنائے۔ مذہب کی بنیاد پر سیاسی عمل میں شریک طبقہ ”رب کی دھرتی، رب کا نظام“ کا نعرہ لگاتا ہے۔
خیال یہ ہے کہ مقبول سیاسی نعروں کو پزیرائی ان کے عوامی خواہشات کے عین مطابق ہونے کے باعث ملی، روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ 60ء کی دہائی کے دوسرے نصف عشرے میں بلند ہوا تو اس وقت ملک میں پہلی آمریت تھی اور قومی دولت پر 22 خاندان قابض تھے، عوام کو اس نعرے نے اپنے سحر میں لے لیا مگر جمہوریت کے بغیر اس خواب کی تعبیر مل نہیں سکتی تھی لہٰذا اسے حقیقت بنانے کیلئے عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے جمہوریت لے آئے۔
دوسری آمریت مشرقی پاکستانیوں کو بنگلہ دیشی بنا کر رخصت ہوئی تو بچے کھچے پاکستان میں سیاسی شعور بیدار ہونے لگا، انسانی مساوات، اختلاف رائے کی گنجائش اور رواداری کے پرندے نے اڑان ابھی بھری ہی تھی کہ تیسری آمریت”سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں“ کا جال لے آئی، حاشیہ برداروں نے ”انتخاب سے پہلے احتساب“ کانعرہ  مجنونانہ بلند کیا، تاہم سیاسی کارکنوں کی پشت پر برسنے والے کوڑوں کی شٹراپ شٹراپ میں تحریک بحالی جمہوریت نے سیاست کو ایک بار پھر عوامی موضوع بنا دیا۔
دوسرے نمبر پر مقبول عوامی نعرہ ”لاٹھی گولی کی سرکار، نہیں چلے گی، نہیں چلے گی“  اگرچہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کی طلبہ تنظیم نے آمریت کے خلاف بلند کیا تھا تا ہم اس کے استعمال پر حق ملکیت کا تنازعہ کبھی پیدا نہیں ہوا، بعدازاں ”ظالمو! قاضی آ رہا ہے“ کے نعرے نے بڑی شہرت پائی، اس کی متعدد پیروڈیاں بھی تخلیق ہوئیں، ایک اور نعرہ بہت ہی دلچسپ ہے، ”ہم ملک بچانے نکلے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ چلو“ دلچسپ اس بنا پر ہے کہ جمہوری قوتیں ایک دوسرے سے اور غیر جمہوری قوتیں جمہوری نما گروہوں کے ذریعے جمہوری قوتوں سے ملک کو بچانا چاہتی ہیں لیکن یہ سب مل کر اس ملک کو دہشت گردی، بد انتظامی، کرپشن، بھوک اور جہالت سے بچانے کے لئے تیار نہیں، ایک نعر ہ”ہارن مت بجائیں، قوم سو رہی ہے“ ملکی معاملات میں قوم کی عدم دلچسپی اور بے حسی کو ظاہر کرتا ہے ”ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ کریں“ کا نعرہ عوامی نمائندوں کی ناقص کارکردگی پر عوامی ردِ عمل کا عکاس ہے۔ پہلے نوٹ، پھر ووٹ کا نعرہ بھی شاید، مایوسی اور غصے کا اظہار ہو۔ حالانکہ نعرہ یہ ہونا چاہیے، ”ووٹ بذریعہ نوٹ، جمہوریت کی موت“
کچھ نعرے شخصیات کے گرد گھومتے ہیں، مثال کے طور پر چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر، بے نظیر یا پھر دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا، شیر آیا، اس کے علاوہ مظلوموں کا ساتھی الطاف حسین اور تبدیلی کا نشان عمران خان یا اِک زرداری، سب پر بھاری وغیرہ، کچھ عرصہ یہاں ”سرخ سلام“ کا نعرہ بھی لگا جب سابق سوویت افواج افغانستان میں آ موجود ہوئیں، حقوق یا موت کے نعرے کی بھنبھناہٹ بھی کبھی کبھار سنائی دے جاتی رہی ہے، کچھ گروہ ”الجہاد الجہاد“ کا نعرہ وقفے وقفے سے یوں بلند کرتے رہتے ہیں، جیسے کوئی تالاب میں کنکر پھینک کر پھیلتے دائرے گننے کی کوشش کر رہا ہو۔ حقوق انسانی کی تحریک سے وابستہ تعلیم یافتہ سول سوسائٹی کے پاس بھی ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے“ جیسا کم از کم ایک نعرہ ضرور موجود ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حقیقی جمہوری قوتوں کے سیاسی نعرے جس طرح ماضی میں انتخابی ماحول پر اثر انداز ہو کر نتیجہ خیز ثابت ہوتے رہے ہیں، الیکشن 2013 میں بھی یقینا ان کا جادو سر چڑھ کر بولے گا، اس اندازے کے حق میں یہی دلیل کافی ہے کہ قوم نے اجتماعی طور پر ایک غیر جمہوری نعرہ ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ“ کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ سیاست ہو گی تو ریاست ہو گی۔