جمہوریت اپنی بحالی کے بعد آہستہ آہستہ مستحکم ہو رہی ہے، ملک میں موجودہ مربوط سیاسی اصلاحات کا عمل شروع ہونے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) تک جمہوریت کو ایک با معنی رسائی دینے کی کوشش کی گئی، اس سے قبل 65 سالہ تاریخ میں ان علاقوں کو قومی سیاسی دھارے میں لانے سے گریز کا غیر جمہوری رویہ حاوی رہا جسے آج بدلنے کی طرف حقیقی امکان پیدا ہوا ہے۔
فاٹا میں پہلی سیاسی اصلاح 1997ء میں ہوئی جب وہاں کے عوام کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق دیا گیا، دوسری سیاسی اصلاح جو در حقیقت ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے وہ 2011ء میں پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء میں توسیع ہے، اگرچہ قبائلی علاقوں میں عوام کو بنیادی حقوق حاصل نہیں اور آئین کا آرٹیکل 17 جو انجمن سازی کا حق دیتا ہے، سیاسی جماعتیں، اس بناء پر کہ زمینی حقائق ان کی قیادت کو وہاں جانے سے روکتے ہیں اور کوئی بڑا سیاسی لیڈر ابھی تک وہاں نہیں جا سکا، اس حق سے استفادہ نہیں کر سکیں، تاہم یہ پیش رفت کم اہم نہیں کہ ماضی میں فاٹا اراکین جو ہمیشہ حکومت کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے تھے اور نہیں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا بھی حق نہیں تھا، اب اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں جبکہ متعدد کو آزاد رکن کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ یہ درست ہے کہ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد گورنر کیلئے ضروری ہے کہ وہ متعلقہ صوبے کا رہائشی اور مقامی ووٹر لسٹ میں اس کا نام درج ہو، یوں انجینئر شوکت اللہ کا بطور گورنر خیبر پختونخوا تقرر آئین کی رو سے اگرچہ درست نہیں تا ہم فاٹا سے تعلق رکھنے والے کسی پاکستانی شہری کی اس آئینی عہدے پر تقرری قومی وحدت کی جانب ایک مثبت قدم شمار ضرور کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ جمہوریت نے اپنی آئینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے قبائلی عوام کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت صدر آصف علی زرداری نے14اگست 2009ء کو فاٹا ریفارمز پیکج کا اعلان کیا، خطے کی سو سال سے زائد اور پاکستان کی چھ عشروں سے زائد قومی تاریخ میں یہ ایک بہت بڑا قدم تھا تا ہم اس اعلان کو آئینی شکل اختیار کرنے میں دو سال کا طویل عرصہ لگا اور بالآخر صدر مملکت نے12اگست 2001ء کو سیاسی اور انتظامی اصلاحات سے متعلق پاکستان پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء میں توسیع اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن میں ترمیم کے دو حکم ناموں پر دستخط کردئیے۔ یوں نئے حکم کے تحت سیاسی جماعتوں کو قبائلی علاقوں تک سیاسی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرنے کی اجازت مل گئی جبکہ ایف سی آر میں ترمیم کے ذریعہ قبائلی عوام کو حراست میں لیے جانے کے24گھنٹوں کے اندر مجاز حاکم کے سامنے پیش کرنے اور ضمانت پر رہائی کا حق دیا گیا اور اجتماعی سزا قبیلے کی سطح سے کم کر کے ملزم کے خاندان تک کر دی گئی ہے۔
پہلے ہم سیاسی اصلاحات بارے اقدامات، درپیش مشکلات اور ممکنہ نتائج کا جائزہ لیں گے کیونکہ اس معاملے کا تعلق قبائلی عوام کے حق رائے دہی سے ہے اور الیکشن 2013ء زیادہ دور نہیں، ملک میں جمہوری کلچر کے فروغ کیلئے یہ ایک حوصلہ افزاء قدم ہے کہ سیاسی جماعتیں قبائلی علاقوں میں اپنی سرگرمیوں کے آغاز سے نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کریں، علاقے کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کیلئے نوخیز مقامی سیاسی قوتوں کو مشاورت کا اہم حصہ بنائیں، امن اور ترقی کا ایجنڈا تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے جب سول سوسائٹی بڑے پیمانے پر متحرک ہو، لوگوں کو مقامی سیاسی خوداختیاری ملے اور فیصلے ووٹ کی پرچی سے ہوں بندوق کی نوک پر نہیں، حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل فاٹا ریفارمز کمیٹی نے چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے خط میں درج ذیل سفارشات کی ہیں۔
۔1- فاٹا کے عوام کو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ جاری اور نام ووٹر لسٹ میں درج کیے جائیں۔
۔2- کیمپوں میں مقیم افراد کو اپنے آبائی حلقہ انتخاب میں اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کا حق عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے اور پاکستان یونیورسل ڈیکلریشن
آف ہیومن رائٹس اور انٹرنیشنل کنونشن آف سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس پر دستخط کر چکا ہے لہٰذا ان کے ووٹ کا اندراج یقینی بنایا جائے۔
۔3- فاٹا میں عدالتی افسران نہیں ہوتے لہذا ملحق اضلاع سے عدالتی افسران کو فاٹا میں الیکشن افسران کے طور پر بھیجا جائے۔
۔4- سپریم کورٹ کے8جون 2012ء کے فیصلے کی روشنی میں پولنگ اسٹیشن ووٹروں کے گھروں سے دو کلو میٹر کے اندر بنائے جائیں۔
خط کی کاپی صدر مملکت، گورنر کے پی کے اور چیئر مین نادرا کو بھی ارسال کی گئی ہے۔
سیاسی اصلاحات ہرگز نتیجہ خیز نہیں ہو سکتیں جب تک انتظامی اصلاحات مطلوبہ پیمانے پر نہ کر لی جائیں، ایف سی آر میں ترمیم کے باوجود کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی کیونکہ طاقت کا سرچشمہ اب بھی پولیٹیکل ایجنٹ ہی ہے، فاٹا کو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں لایا گیا اور نہ وہاں کوئی ہائیکورٹ یا ماتحت عدلیہ کا نظام قائم کرنے کی گنجائش نکالی گئی ہے، ملزم کو گرفتاری کے 24گھنٹوں کے اندر جس اتھارٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا وہ پولیٹیکل ایجنٹ کے سوا کوئی اور نہیں، ضمانت منظور یا مسترد کرنے کا اختیار صوابدیدی ہے، اجتماعی سزا خاندان تک محدود تو کی گئی لیکن ”خاندان“ میں رشتہ دار بھی آتے ہیں، اس کا غلط استعمال خارج از امکان نہیں ہو گا، لے دے کے صرف اخراجات کا آڈٹ ہو گا، گویا انتظامی اصلاحات کی سطح میں ایسی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوئی جو سیاسی اصلاحات کے عمل میں معاونت کر سکے۔
مشکلات:
۔1- قبائلی علاقوں میں جدید ہلکے اور بھاری خود کار ہتھیار وں سے مسلح کالعدم تحریک طالبان، اس سے وابستہ ذیلی گروہ اور غیر ملکی شدت پسند بڑی تعداد میں
موجود ہیں جو پاکستان کے آئین، جمہوریت اور حکومت کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا سب سے بڑا چیلنج امن و امان کی صورتحال ہے۔
۔2- علاقے میں جنگ جیسی صورتحال کے باعث قومی سیاسی جماعتیں اور علاقائی سیاسی جماعتیں عملی طور پر فعال نہیں ہو سکی ہیں، تنظیم سازی کیلئے کوئی قدم نہیں
اٹھایا گیا۔
۔ 3- اندرون ملک ہجرت پر مجبور ہونے والے لاکھوں قبائلی عوام کیمپوں میں مقیم ہیں، ان کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نہیں، جن ڈیڑھ لاکھ افراد کے پاس سی این آئی سی موجود ہیں ان کے نام ووٹر لسٹ میں درج نہیں۔
۔ 4- الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ابھی تک فاٹا میں الیکشن 2013ء کے حوالے سے کسی انتخابی پالیسی کا اعلان نہیں کیا، کچھ واضح نہیں کہ پولنگ اسٹیشن کہاں
کہاں بنائے جائیں گے، انتخابی عملے کی حفاظت کا کیا انتظام ہو گا، خواتین ووٹ ڈال سکیں گی یا نہیں۔
۔ 5- نادرا کے فاٹا رجسٹریشن دفاتر میں صرف مرد عملہ ہونے کے باعث قبائلی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی تصاویر اور فنگر پرنٹس کے حوالے سے رجسٹریشن کے
لئے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
مواقع:
۔ 1- قبائلی عوام قومی دھارے میں شامل ہونے کے آرزو مند ہیں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کے آغاز کا انہوں نے خیر مقدم کیا ہے۔
۔2- سیاسی جماعتوں کی جانب سے فاٹا کے عوام کے ساتھ قریبی سیاسی روابط قائم کرنے کی عملی کوششیں شدت پسندی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔
۔ 3- حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کیلئے پیش رفت کا امکان۔
۔ 4- فاٹا میں 5 لاکھ 55ہزار 234 خواتین ووٹرز کا اندراج
تجاویز:
۔ 1- الیکشن کمیشن آف پاکستان فاٹا ریفامز کمیٹی کی سفارشات پر فی الفور عمل درآمد کرے۔
۔ 2- انتظامی اصلاحات کی سطح میں اضافہ اور ایف سی آر کی جگہ تعزیرات پاکستان کا نفاذ کیا جائے۔
۔ 3- جمہوری قوتوں اور ریاستی اداروں کو عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت کرنی چاہیے تا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے ذریعہ انتخابی عمل کو پر امن اور نتیجہ خیز بنایا
جا سکے۔
۔ 4- نادرا حکام فاٹا میں خواتین عملے کی دستیابی یقینی بنائیں تا کہ قبائلی خواتین زیادہ سے زیادہ تعداد میں قومی شناختی کارڈ حاصل کر سکیں۔