شفقت عزیز
جدید معاشروں کا سب بڑا پرتو انسانی حقوق کا احترام اوران کی بہم رسانی یقینی بناے کے لیے خواہش اورا قدامات ہیں۔آج سے چند دہایاں قبل تک انسانی حقوق کا تصور کافی محدود تھا تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد اس ضمن میں تاریخ ساز پیس رفت ہوئی۔انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں انسانی حقوق کے نئے پیمانے دیے گئے جس کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ دنیا کے ہر فرد کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے نئے کنونشنز سامنے آتے رہے جن کے تحت عورتوں ، بچوں، مزدوروں اور دیگر تمام طبقات کے حقوق کی واضح تشریح بیان کی گئی۔یہ تمام معاہدے اور کنونشنز اپنے رکن ممالک کو اس امر کا پابند بناتے ہیں کہ وہ ان معاہدوں کے مندرجات کی رو سے اپنے ہاں نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی بہم رسانی کو یقینی بنائیں بلکہ ضروری ہو تو اس کے لیے قانون سازی بھی کریں۔
اقوم متحدہ کے ایک ذمہ دار رکن ممالک کی حیثیت سے پاکستان ان میں سے اکثر بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط اور ان کی توثیق کر چکا ہے تاہم بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کو عملی طور پر یقنی بنانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی، وہ دیکھنے میں نہیں آ سکے۔جہاں تک انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے درکار سیاسی ارادے کا تعلق ہے تو ہمیں بعض صورتوں میں اس کا مثبت اظہار بھی دیکھنے کو ملتا ہے جیسا کہ سال 2008کے بعدبرسرا قتدار آنے والی سیاسی حکومت نے انسانی حقوق کی باقاعدہ وزارت قائم کی۔اس وزارت کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی یا اس کا کام کتنا مؤثر تھا، یہ ایک الگ موضوع ہے تاہم نئی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اس وزارت کی علیحدہ حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وزارت قانون میں ضم کر دیا۔انسانی حقوق یقینی طور پر ایسا معاملہ نہیں ہے جس کے لیے یہ توجہیہ پیش کی جاسکے کہ شاید یہ وزارت بھی منتقلی اختیار کے عمل کی نذر ہو گئی کیونکہ انسانی حقوق بہر حال صوبوں کے ساتھ ساتھ وفاق کا بھی معاملہ ہے اور آئیندہ بھی رہے گا۔
پالیسی کی حد تک ایک اور اچھی پیش رفت اس وقت دیکھی گئی جب مئی 2012کو پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے صدر پاکستان نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے قیام سے متعلق مسودے پر دستخط کیے ۔ اس اقدام کے ذریعے در حقیقت 1993 کے پیرس ڈیکلریشن کے تحت پاکستان میں غیر جانبدار انسانی حقوق کمیشن کے قیام کی شرط پوری کی گئی۔مختلف حلقوں کی جانب سے اسے ایک اہم کامیابی سے تعبیر کیاگیا ۔اس قانون کی رو سے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہونا تجویز کیا گیا اور سربراہ سمیت اس ادارے کے 10 اراکین ہوں گے، جب کہ کم از کم دو خواتین اراکین کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ۔دیگر شرائط و ضوابط کے مطابق کمیشن کے رکن کی عمر کم از کم 40 برس ہونی چاہیئے اور اسے انسانی حقوق سے متعلق امور سے واقفیت ضروری ہے۔ کسی بھی رکن کی تعیناتی چار سال کے لیے ہو گی اور اس میں صرف ایک مرتبہ توسیع کی گنجائش رکھی گئی ۔
کمیشن کے سربراہ اور اراکین کی تعیناتی کے سلسلے میں واضح کیا گیاکہ وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف باہمی مشاورت سے تین، تین نام تجویز کریں گے، جب کہ حتمی چنا کا اختیار اس سلسلے میں قائم پارلیمانی کمیٹی کو ہوگا۔کمیشن کو انسانی حقوق کی خلاف وزری سے متعلق کسی بھی واقعے کا از خود نوٹسلینے کا اختیار ہے جب کہ کوئی بھی متاثرہ شخص خود یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعے درخواست دائر کر سکتا ہے۔کمیشن کے اراکین یا ان کا نامزد کردہ شخص ملک میں کسی بھی جیل یا حکومت اور اس کے اداروں (بشمول خفیہ ایجنسیوں) کی جانب سے مشتبہ افراد کو تحویل میں رکھنے کے لیے زیر استعمال عمارت کا دورہ کر سکے گا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کے زیرِ حراست افراد کو ان کے حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔اسی طرح کمیشن دہشت گردی سمیت ان معاملات کا بھی جائزہ لے گا جس سے انسانی حقوق سلب ہوتے ہیں اور ساتھ ہی کمیشن معاشرے میں انسانی حقوق سے متعلق آگاہی کے فروغ کے لیے بھی کوششیں کرے گا۔اس کی مرتب کردہ سالانہ اور خصوصی رپورٹیں وفاقی حکومت کو پیش کی جائیں گی جب کہ ان کا پارلیمان میں بھی جائزہ لیا جائے گا۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ اس قانون کو وجود میں آئے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد حال ہی میں حکومت کی جانب سے ایک اشتہار جاری کیا گیا ہے جس میں مجوزہ کمیشن کے سربراہ اور اراکین کے لیے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔اس اشتہار اورا س کے مندرجات کئی نئے سوالات سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کمیشن کے لیے بنائے گئے قانون میں ان تقرریوں کاواضح طریقہ کار طے ہو جانے کے باوجود اشتہار کے ذریعے امیداروں سے درخواستیں طلب کرنے کی ضرورت کیوں درپیش آئی۔ کیا اسے پارلیمان کے اختیارات واپس لینے کی ایک وکشش سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اور پھر اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ اس قانون کے منظور ہونے کے ایک سال بعد تک کوئی عملی پیشرفت کیوں نہیں کی جا سکی۔شہریوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ معاملہ ترجیحات کا تھا یہ اس حوالے سے کسی طرح کی رکاوٹیں درپیش تھیں اور اگر تھیں تو ان کی تفصیل سامنے آنی چاہئے۔
کمیشن کے سربراہ ا ور اراکین کے لیے درخواستیں طلب کئے جانے والے مذکورہ اشتہار میں ’اچھی شہرت‘ کے حامل ہونے کابطور خاص ذکر موجود ہے جس سے یہ خدشہ بھی سامنے آتا ہے کہ کہیں یہ آئین کی دفعہ 62اور63 کے جیسا کوئی معاملہ ہی نہ ہو۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہاقوام متحدہ کی متعلقہ قرارداد میں زور دیا گیا تھا کہ تمام رکن ممالک ریاستی ادارے کے طور پر انسانی حقوق کے کمیشن قائم کریں تاکہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق بہتر انداز میں مل پائیں۔ دنیا میں اس وقت پچاس سے زائد ممالک میں اس طرح کے کمیشن قائم ہو چکے ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستان میں انسانی حقوق کی بہم رسانی کبھی بھی ریاستی سطح پر ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکا اورا کثر تو یہ دلیل بھی پیش کی جاتی رہی کہ اس حوالے سے ضروری اقدامات اس وقت کیے جائیں گے جب وسائل میسر ہوں گے۔پالیسی کی سطح پر شہریوں کے سماجی حقوق کا اب بھی کہیں ذکر نہیں ملتا۔توقع کی جانی چاہئے کہ حکومتی سطح پر اس کج روی کا ازالہ کیا جائے گا اور ملک کے شہریوں کے تمام بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دینے کے لیے تمام ضروری ا قدامات کسی حیل و حجت کے بغیر کئے جائیں گے۔