ہر تخریب میں کوئی نہ کوئی صورت تعمیر کی ضرور مضمر ہوتی ہے، کچھ ایسا ہی معاملہ اسلام آباد میں برپا کیے جانے والے حالیہ دھرنے کا بھی ہے جس کے اب تک صرف منفی پہلو ہی نمایاں کیے گئے لیکن اس کے کچھ مثبت پہلوؤں اور ان کے اثرات کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا، آمدم برسرِ مطلب، اس دھرنے کے نتیجہ میں نظام کی وہ خرابی سامنے آ گئی جو پیسے کی سیاست کے باعث بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، قومی تاریح کے65برسوں میں جمہوریت کیلئے بے مثال جدو جہد کرنے والی سیاسی جماعتوں نے سیاسی اصلاحات سے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی،امیدوں کو ٹکٹ دیتے وقت پارٹی کیلئے زیادہ سے زیادہ ”چندے“ کو جو شاید اب کروڑوں تک جا پہنچا ہو، اہلیت کا معیار تصور کیا جاتا ہے جبکہ برادری اور اثرورسوخ اضافی خوبیاں شمار ہوتی ہیں۔
یہ طے ہے کہ آمریت کی بنجر کوکھ سے کوئی نفع بخش پیداوار ممکن نہیں ہوتی تا ہم اپنے مفادات کیلئے ہی سہی، غیر جمہوری قوتوں نے سیاسی اصلاحات کے نام پر کچھ اقدامات اٹھائے ضرور جبکہ جمہوری حوالوں سے 1976ء کے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سوا سیاسی جماعتوں کا دامن خالی دکھائی دیتا ہے، کسی سیاسی جماعت نے کبھی یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ قانون ساز ادارے کی رکنیت کیلئے ایسے امیداواروں کو نامزد کیا جائے جو اچھی شہرت کے حامل ہوں، جنہیں ملکی مسائل کا ادراک ہو اور جو دھن دولت، دھونی دھاندلی یا برادری اور اثرو رسوخ کے بجائے انتخابی قواعد و ضوابط پر عملدر آمد اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہوں تا ہم انتخابی عمل میں اصلاحات کے حوالے سے اب یہ عوامی گفتگو کا ایک سنجیدہ موضوع ہے، لوگ ملک میں ایسی حقیقی جمہوری سیاست چاہتے ہیں جس کی بنیاد پیسے پر نہ ہو اور انتخابی سرمایہ کاری کے بدلے میں پلاٹ، پرمٹ، ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کا راستہ روک کر ترقی و خوشخالی کو یقینی بنایا جائے جہاں عوام کو یہ جاننے کا حق ہو کہ ان کے پیسوں سے، ان کی حکومت، ان کے لئے کیا کر رہی ہے۔
دھرنے کا دوسرا مثبت پہلو طالبان کے ردِ جمہوریت کے خلاف آئین، جمہوریت اور قانون کا جھنڈا اٹھا کر اس بات کا اعلانیہ اظہار تھا کہ پاکستانی حملوں کے یقینی خطرات کے باوجوس د انتہا پسندی کے آگے سر جھکانے سے انکاری ہیں، اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا جب طالبان نے ملک بھر میں آئمہ مساجد کو اس مضمون کا خط بھیجا تھا کہ اسلام میں جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں لہٰذا اسے حرام قرار دے کر اس کی مخالف کی جائے، تین عشروں سے زائد عرصہ سے ہمارا معاشرہ جہادی کلچر کے زیر اثر ہے، ملک میں اس کے باوجود کہ ہر فقہ کی اپنی سیاسی جماعت ہے جو بلا واسطہ یا بالواسطہ انتخابی عمل میں بھی حصہ لیتی ہے، ان میں سے کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو طالبان جسے نظریات رکھتی ہیں یا ان کے نظریات کی حامی ہیں اور متعدد وہ ہیں جو قدرے معتدل اور مختلف نظریات رکھتی ہیں لیکن ردِ جمہوریت کے جواب میں آئین، جمہوریت اور قانون کا پرچم لے کر کوئی بھی اس طرح طالبان کے سامنے نہیں آیا جس طرح حالیہ دھرنے کے شرکاء آئے۔
اس معاملے کا تیسرا مثبت پہلو وہ پر امن احتجاج تھا جس کے ہزاروں شرکاء نطم و ضبط کا مثالی نمونہ پیش کر رہے تھے، گویا پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک پر امن احتجاج دیکھا، وفاقی دارالحکومت کے رہائشی اگرچہ
سہمے ہوئے تھے کیونکہ انتظامیہ نے لانگ مارچ اور دھرنے کے پیش نظر ماضی کے تجربات کی روشنی میں بینکوں کو اے ٹی ایم مشین خالی رکھنے اور بلیو ایریا کے تاجروں کو قیمتی سامان گوداموں میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، تعلیمی ادارے اور دفاتر بھی تین روز بند رکھے گئے، جڑواں شہروں پنڈی، اسلام آباد کے درمیان آمدورفت بھی جزوی طور پر متاثر ہوئی لیکن تمام خدشات غلط ثابت ہوئے، پر امن احتجاج نے حکومت کو مذاکرات کا جمہوری راستہ دکھایا اور شرکاء روایتی جلاؤ گھراؤ تو درکنار کوئی گملہ تک توڑے بغیر واپس چلے گئے۔ اس میں جمہوریت کیلئے بھی یقینا ستائش کا پہلو ہے جو بے لچک یا ہٹ دھرم نہیں ہوئی، اور یہ جمہوریت ہی کی طاقت تھی جس نے عوام، جمہوری حکومت اور سیاسی قوتوں کو یہ حوصلہ بخشا کہ وہ غیر آئینی مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ پیغام یہ ملا کہ جمہوریت بھی اب مستحکم ہے۔
سبق یہ ملا کہ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج ِ پر امن بھی ہو سکتا ہے، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان شدید سردی اور بارش میں بھی اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے ثابت قدم رہ سکتے ہیں، دوسرا یہ کہ ملک کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے، آئین سے ما وراء اقدام کی کوئی گنجائش نہیں اور اسلام کے نام پر انتہا پسندی کو اپنا غیر جمہوری ایجنڈا مسلط کرنے نہیں دیا جائے گا، تیسرا یہ کہ اب اس ملک میں سیاسی جماعتوں کو سیاسی اصلاحات کرنا ہوں گی اور یہ طے پا گیا کہ پیسے کی سیاست عوام کو قبول نہیں کیونکہ یہی سارے فساد کی جڑ ہے۔
تمام تر مشکلات کے باوجود بہتری کی گنجائش موجود ہے، لازوال قربانیوں کے نتیجہ میں موجودہ جمہوریت بحال ہوئی ہے، جمہوری اور ریاستی ادارے ماضی کی نسبت قدرے مستحکم ہیں تا ہم قانون کی حکمرانی کو رواج پانے میں وقت لگے گا اور جمہوری معاشرے کے قیا م کیلئے انسانی مساوات، اختلاف رائے کی گنجائش اور رواداری کو اپنی جگہ بنانے کیلئے یقینا ایک عرصہ درکار ہے۔ قومی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ وفاق کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے قومی سیاسی قیادت نے بے مثال سیاسی اتفاق رائے کا مظارہ کیا، قومی دستور کی صفائی ستھرائی ہوئی، صوبائی خودمختاری کا مطالبہ پورا کیا گیا، پارلیمنٹ کو صدر سے اب کوئی خطرہ نہیں، ملک میں ایک آزاد اور قابل بھروسہ الیکشن کمیشن کا م کر رہے ہیں، قومی آمدن کی تقسیم کیلئے قومی مالیاتی کمیشن اور وفاق اور اکائیوں کے درمیان تصفیہ طلب معاملات نمٹانے کیلئے مشترکہ مفادات کی کونسل جیسے آئینی ادارے موجود ہیں۔ ملک میں آئندہ کوئی بھی احتجاج پر امن ہو، پیسے کی سیاست کا خاتمہ اور قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے تو جمہوریت کیلئے کوئی خطرہ نہیں۔